INVESTMENT 365 PK

Real Estate & Builders


ARFA KARIM PRIDE OF PAKISTAN

Tuesday, September 13, 2016

دنیا کی پراسرار ترین جگہ، ٹیکسل (جاوید چودھری)


·      
ٹیکسلا‘ اسلام آباد سے شمال مغرب میں33کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہ خوب صورت وادی شمال مشرق کی جانب مری‘ جنوب مشرق سے مارگلہ اور شمال مغرب کی طرف پہاڑیوں میں گھری ہوئی ‘شمالاً جنوباً 5 میل اور شرقاً غرباً 17 میل پر محیط ہے۔یہاں سے دو دریاگزرتے تھے جو اس کے شاداب ہونے کے ضامن تھے‘ اس کا جغرافیائی مقام اس کی اہمیت میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ یہ تین اہم تجارتی راستوں کا مقام اتّصال تھا جن میں ایک راستہ برصغیر پاک و ہند‘ دوسرا وسطی ایشیا ء اور تیسرا غربی ایشیا ء کو جاتا تھا۔

اس شہر کا ذکر ہندومت‘ جین مت اور بدھ مت کی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اس کی دستیاب تاریخ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے چھ سو سال قبل سے شروع ہوتی ہے۔ 330-580 میں یہ شہر ایرانی شہنشاہیت کے زیرنگیں تھا۔ ان سے قبل یہاں تیکشا قبیلہ حکم ران تھا۔ ٹیکسلا سنسکرت لفظ تیکشا اورسیلا کا یونانی مخفف ہے جس کا مطلب سانپوں والی پہاڑی ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ تیکشا سانپوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی مرضی سے انسانی شکل اختیار کر لیتے تھے۔ مہا بھارت میں ذکر ہے کہ آریا مہاراجا ’’جنم جایا‘‘ نے جنگ میں شکست دے کر تیکشا قبیلے کا قتل عام کیا اور اس فتح کے بعد یہاں ناگ کی قربانی دی۔
چھٹی صدی عیسوی ق م میں ٹیکسلا اپنی قدیم جامعہ ’’گندھارا‘‘ کی وجہ سے علم و فضل کا مرکز مانا جاتا تھا۔ جوتی پال‘ جودیکا‘ کوتلیا‘ چانکیا جیسی ممتازشخصیات ان ہی درس گاہوں سے فارغ التحصیل تھیں۔سکندر اعظم (326ق م) کی آمد کے موقع پر یہاں موریا خاندان کا راجا امبھی حکم ران تھا‘ اس نے مقابلہ کرنے کے بجائے سکندر کی مدارات کی اور شہر میں کئی عمارتیں سکندر کے لیے تعمیر کروائیں۔ چار سال بعد چندر گپت موریا نے یونانی افواج کو دریائے اٹک کے پاربھگا دیا اور ٹیکسلا اور پنجاب کی دیگر ریاستوں کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تاہم اشوک اعظم 273-232)ق م)کی وفات کے بعد موریا سلطنت بکھر گئی اور 190ق م کے قریب باختریوں نے وادئ کابل‘ پنجاب اور سندھ کے علاقے فتح کر کے ٹیکسلا کو اپنا دارالحکومت بنالیا۔ کچھ عرصہ بعد باختریوں نے اس شہر کو چھوڑ کر شمال مشرق میں نمرہ نالہ کے بالمقابل ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جسے سرکپ کہتے ہیں جو دوسری صدی بعد ازمسیح تک یکے بعد دیگرے باختریوں(Bactrian Greek)‘ شاکا(Scythians)‘ پہلوی(Parthians)‘ کُشان (Kushans) ا ور ساسانیوں (Sasanians) کے زیر اثر رہا۔ سلطنت کُشان کے دوسرے بادشاہ ویم کیڈفائیسس نے سرکپ شہر چھوڑ کر ایک تیسرا شہر شمال مشرق میں دو میل دور لنڈی نالے کے پار سرسکھ نام کا شہر بسالیا۔ یہ شہر شایان کشان کے زیر اثر پانچویں صدی بعد مسیح تک آباد رہا455ب م کے اواخر میں سفیدہن (White Huns) ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور دوسرے شہروں کی طرح ٹیکسلا بھی اجاڑ دیا‘ اس کے بعد ٹیکسلا کی شان کبھی لوٹ کر نہ آئی۔ چینی سیاح ہیو سانگ ساتویں صدی عیسوی میں یہاں آیا تو اس نے دیکھا کہ ٹیکسلا سلطنت کشمیر کا صوبہ ہے‘ عبادت گاہیں تباہ و برباد اور معاشی حالات ابتر ہیں۔



بھیر ماؤند:ٹیکسلا کا پہلا شہر بھیر ماؤند(200۔600ق م) کے نام سے موسوم ہے یہ وہی شہر ہے جہاں اشوک نے حکومت کی‘ یہ وہی دور ہے جس میں تعمیراتی شاہ کار تخلیق ہوئے۔اس دور میں دنیا بھر میں اس معیار کا کام کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل اور بعد ازاں پاکستانی ماہرین نے اس شہر کا کچھ حصہ بازیافت کیا ہے۔ یہ شہر 600 میٹر شرقاً غرباً اور 1000میٹر شمالاً جنوباً طویل تھااور اسے کچی اینٹوں ‘ گارے اور لکڑی سے بنی انتہائی مضبوط فصیل کے ذریعے محفوظ کیاگیا۔ اس کی کاری گرانہ مہارت بے مثال ہے۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شہر تین بار تباہ ہو ا۔
سرکپ:دوسرا شہرسرکپ (200ب م۔تا۔200ق م) باختری عہد میں تعمیر ہوا ‘اس کی تعمیر میں اعلیٰ یونانی جیومیٹریکل ذوق جھلکتا ہے‘ اس کی تعمیر سطح مرتفع پوٹھوہار کو مدنظر رکھ کر کی گئی۔علم الارضیات پر ان لوگوں کی نظر گہری تھی۔ زمین کا تہ در تہ اور باہم دِگر ہونا‘ چند جدید ارضیاتی دریافتوں میں سے ہے جس سے وہ لوگ آشنا تھے ‘چناں چہ وہ ایک گہرا کنواں کھودتے جو پینے کے پانی کے لیے کھودے جانے والے کنوؤں سے زیادہ گہرا ہوتا تھا‘ دونوں کی گہرائی میں کم از کم دو ارضی تہوں کا فاصلہ ہوتا تھا تاکہ دونوں پانی آپس میں نہ مل سکیں۔دوسرا اہم کام اس میں یہ تھا کہ بے پیندے کے مٹکے اوپر تلے رکھ کر باہم جوڑ دیے جاتے تاکہ گندا پانی دائیں بائیں درمیانی سطح زمین سے صاف پانی کے کنوؤں کو آلودہ نہ کرپائے۔ یہ بے پیندے کے مٹکے ٹیکسلا کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔ شہر خوب صورت مربعوں اور جیومیٹری کی پر کشش ڈرائنگ سے مزین ہے۔ یہ شہر 200 ق م میں بنایا گیا۔ پورا شہر ایک فصیل کے ذریعے محفوظ کیا گیا تھا جو پتھروں سے بنائی گئی تھی ۔21 فٹ چوڑائی کے مسلسل وقفوں کے بعد نیم ڈھلوانی ستونوں سے دیوار کو مضبوط کیاگیا تھا ‘اس کے علاوہ شہر کی پشت پر موجود پہاڑ پر ایک پولیس چوکی اس حفاظتی نظام کو مزید مستحکم کرتی تھی۔ شہر کا نقشہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ شہر کسی ماہر ٹاؤن پلانر کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک خاصی چوڑی مرکزی شاہ را ہ ہے ۔ دائیں بائیں گلیاں متناسب انداز سے بنائی گئی ہیں۔ ایک کمرہ چند انچ بلند‘ دوسرا نیچے اور تیسرا اس سے نیچے تعمیر کیا جاتا تھا تاکہ نکاسی آب میں ڈھلوان کی قوت کو استعمال کیا جا سکے۔ مرکزی شاہ راہ پر ذرا آگے چل کر بازار آتا ہے پھر اشرافیہ کا رہائشی علاقہ اور اس کے بعد بادشاہ کا محل اور بڑا مندر آتا ہے۔ یہ ایک سیکولر شہر تھا‘ اس میں آتش پرست‘ بت پرست اور بدھ مت کے ماننے والے رہتے تھے۔یہ بات دوہرے سروں والے عقابوں کے مندر سے مترشح ہوتی ہے‘ یہ برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد مندر ہے جس میں ہندو‘ ایرانی اور یونانی تینوں تہذیبوں کے دیوی دیوتا موجود ہیں۔ شہر کے مغربی حصہ میں دربار عام‘ محافظوں کی جگہ‘ دربار خاص اور رہائشی علاقے ہیں۔ خواتیں کے کوارٹرز کے ساتھ ایک چھوٹا سا مندر بنا ہوتا تھا۔ سب سے بڑا مندر مرکزی شاہ راہ کے شرقی حصہ میں واقع ہے جو ایک اونچے پلیٹ فارم پر بنایا گیا تھا۔ اس کے چہار طرف دالان تھے اور دیواروں کو مجسموں اور خوب صورت تصویروں سے مزین کیا گیا تھا۔شہر کی آسودہ حالی کا اندازہ یہاں سے برآمد ہوے سونے چاندی کے زیورات کی کثرت سے ہوتا ہے۔ان زیورات پر بنائے گئے نقش و نگار ان لوگوں کے ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس شہر گم گشتہ کی تلاش میں زیادہ تر جس حصہ میں کھدائی ہوئی ہے وہ ہتھیال کی پہاڑی کے شمال میں ہے۔ بالائی سطح سے لے کر 23 فٹ کی گہرائی تک آثار کی مسلسل سات تہیں دریافت ہوئی ہیں۔ یعنی سات شہر اوپر تلے واقع ہیں۔ان تہوں سے پتا چلتا ہے کہ شہر چار سو سال تک آباد رہا۔


سر سکھ :تیسرا شہر سر سکھ ہے ۔سرکپ اور سرسکھ کی وجہ تسمیہ اس علاقے کی لوک کہانیوں کے ایک کردار راجا رسالو اور سات شیطانوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ دو بھائی سر کپ اور سرسکھ اس علاقے کے حکم ران تھے۔ اس شہر کی فصیل 18فٹ موٹی ہے اور بھاری بھرکم نیم قوسی ستونوں سے اسے مزید مضبوط کیا گیا ہے۔فصیل 4500 فٹ شرقاً غرباً 3300 فٹ شمالاً جنوباًپیمائش کی گئی ہے ۔ اس کی تعمیر میں بنیادی کردار عظیم کنشک نے ادا کیا ۔ شہر قریباً مستطیل شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ شہر کی پیمائش قریباً 1500 x 1100 گز ہے‘ فصیل خوب صورت ڈائپر شکل میں ہے۔ابھی اس شہر کے یہی چند نوادرات دریافت ہوپائے ہیں۔
مشہورعبادت گاہیں اور خانقاہیں: مذکورہ بالا تینوں شہروں کے علاوہ ان شہروں کے اطراف ایک وسیع رقبے پربدھوں‘ جینیوں اور آتش پرستوں کی عبادت گاہیں اور خانقاہیں بکھری ہوئی ہیں۔ٹیکسلا پوری دنیا میں اپنے خوب صورت ممتاز اور ممیّز قسم کی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ قدیم زمانے میں ٹیکسلا‘ جین مت کا ایک اہم مرکز تھا اور اس مذہب کی عبادت گاہوں کے آثار یہاں جابجا پھیلے ہوئے ہیں۔
ٹیکسلا کے گرداگرد پھیلے ہوئے چند اہم استوپ اور خانقاہیں مندرجہ ذیل ہیں: :دھرماراجیکا استوپ (500۔100ب م) پاکستان میں موجود غالباً سب سے پرانا استوپ ہے۔ عجائب گھر سے 2 میل جنوب مشرق میں واقع ہے ۔ یہ مندر بدھا کی راکھ کو از سر نو تقسیم کرنے کے لیے موریا خاندان کے مشہور بادشاہ اشوک اعظم نے تعمیر کیا تھا۔ اشوک کو بدھ مت کی خدمات کے عوض دھر ماراجا کا خطاب ملاتھا۔ اسے 1912-16 میں دریافت کیاگیا۔ اس گول استوپ جس کا قطر 131 فٹ اور بلندی 45 فٹ ہے۔ پتھروں کی کاری گری کا شاہکار ہے۔ 30 ب م کے زلزلے سے اس استوپ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ 40 ب م میں کشان حکم رانوں نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا اور اسے گوتم بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار کی نمائندگی کرنے والے مجسموں سے مزین کیا۔ یہ استوپ گندھارا آرٹ کے شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے۔
۲: جندیال مندر‘ سرکپ شہر کے شمال کی طرف ہے۔ اس کو غالباً یونانیوں نے تعمیر کیا تھا جو یہاں آنے سے قبل آتش پرست تھے۔ اسے یونانی فن کا بہتر نمونہ قرار دیاجاسکتاہے۔
۳:موہڑہ مرادو استوپ ‘ٹیکسلامیوزیم کے شمال مشرق سے قریباً 6کلومیٹر پر واقع ہے ۔ اسکے ساتھ خوبصورت خانقاہ بھی ہے جس میں27حجرے مربع صورت اور ترتیب میں بنائے گئے ہیں اور ایک مربع صحن اس کے بیچوں بیچ ہے۔ 16فٹ اونچے صحن پر یہ استوپ بنایا گیا تھا اور اس کے متصل ایک چھوٹا استوپ بھی ہے۔ نویں حجرے میں ایک 20فٹ اونچی برجی پائی گئی ہے ۔ یہ کسی بڑے بھکشو کی تپسیا کی جگہ تھی اور اسی کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے یہ یادگار بنائی گئی تھی۔ اس یادگار کی نقل عجائب گھر میں رکھی گئی ہے۔
۴:جولیاں(200-500 ب م) کا مندر عجائب گھر سے 7کلو میٹر شمال مشرق میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہ 916-17 میں دریافت ہوا۔یہاں سے برآمد ہونے والے بدھ کے اکثر مجسمے پتھر‘ چونے اور جپسم سے بنے ہوے ہیں۔ اس کے ساتھ ملحق خانقاہ ہے اور اس سے منسلک باورچی خانے اور غسل خانے وغیرہ بہتر حالت میں ہیں۔ یہاں سے برِہمی علامتی اور سنسکرت میں لکھی گئی کچھ تحریریں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ یہ تحریریں پانچویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہیں۔
۵: کلاوان استوپ‘ دھرماراجیکا سے شمال کی طرف قریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے۔
۶:پپلان استوپ کے ہر طرف پیپل کے درخت تھے جس سے اس کا یہ نام پڑ گیا ۔ یہ 1923-24 میں دریافت ہوا۔ یہ استوپ پہلوی دور یا ابتدائی کشان دور سے تعلق رکھتاہے۔ یہ سر سکھ سے جنوب مشرق میں قریباً دو میل کے فاصلے پر ہے۔
۷:بھیمالا استوپ 1930-31ء میں دریافت ہوا۔ یہ سرسکھ سے شمال مشرق میں قریباً 5میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے علاوہ بھلڑا استوپ‘ کنالا استوپ اوراس کے ساتھ منسلک خانقاہ ‘قادر موہڑا اور اخوری بھی قابلِ دید ہیں۔ زیادہ تر پانچویں صدی عیسوی کے دوران تعمیر کیے گئے تھے۔
ٹیکسلاعجائب گھر
1911
میں ٹیکسلا کے کھنڈرات کی دریافت کے بعد 1918 میں عجائب گھر کا سنگ بنیاد لارڈ وائسرائے اور گورنر جنرل کلیمس فورڈ نے رکھا۔ آرکیٹکٹ لی ایم سلیوان نے اس کو ڈیزائن کیا جو میو سکول آف آرٹ لاہور سے فارغ التحصیل تھے۔ افتتاح سرمحمد حبیب اللہ نے 5اپریل 1928 کو کیا۔ اس عجائب گھر کی تزئین و آرائش اور اشیاء قدیمہ کی ترتیبِ نو 2003 میں کی گئی ۔تمام اشیا ء کو تدریج و تسہیل کے بین الاقوامی انداز سے پیش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ عجائب گھر کے ساتھ ملحقہ باغات کو از سرِ نو سنوارا اور سجایاگیا ہے۔میوزیم کے پائیں باغ میں پیپل کا ایک درخت خاص طور سے سری لنکا سے لاکر لگایا گیا ہے۔اس درخت کی تخصیص یہ ہے کہ یہ اس درخت کی ایک پھوٹ ہے جس کے نیچے بیٹھ کر مہاتمابدھ نے ’’نروان‘‘ حاصل کیا تھا۔دوسری صدی ق م میں شہنشاہ اشوک کی لڑکی’ ’سنگھامیتا‘ ‘اصل درخت کی ایک پھوٹ سیلون لے گئی تھی جہاں انورادھاپور کے شہر میں یہ پروان چڑھتا رہا۔ 12دسمبر 1963 میں جب آمر جنرل ایوب خان سیلون کے دورے پر گئے تو سیلون کے وزیر اعظم نے انہیں اس مقدس درخت کی پھوٹ تحفے میں دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ٹیکسلا عجائب گھر سے ملحقہ باغ میں یہ پودا اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔
بودھا کا نایاب مجسمہ جو’’ برلن‘‘سے واپس لیاگیا 
محکمۂ آثارِ قدیمہ کے مطابق تمام آثار قدیمہ کو افادۂ عام و خاص کے لیے تدریجاً صفحۂ قرطاس پہ مرقوم و محفوظ کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایاگیا ہے جو اس وقت ٹیکسلا کے عجائب گھر میں محصور ہیں۔ دوسرے مرحلے میں آثار قدیمہ کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے اور شائع کرنے کا سلسلہ 1500سے زیادہ قدیم استوپ آثار و نوادرات پر مشتمل ہے جب کہ تیسرا مرحلہ 3000 سے زیادہ ٹیراکوٹا کے نایاب آثار اور 4000 سے زیادہ دھاتی نوادرات پر مبنی ہوگا۔ محکمے نے بتایا کہ ان تمام کتابی مشمولات کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ان کی غیر قانونی سمگلنگ کو روکا جاسکے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی ملک نوادرات پر تحریری مواد کے ثبوت کے بغیر ان پر حقِ ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال بودھا کا وہ نایاب مجسمہ ہے جو برلن سے واپس حاصل کیا گیا ہے کیوں کہ اس کو کتابی صورت میں محفوظ کرلیاگیا تھا۔ یہ مجسمہ وادی پشاور سے چوری ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کثیر تعداد میں ٹیکسلا آثار قدیمہ کے نوادرات کو سٹورز میں محفوظ کیا گیا ہے اور بہت کم کو عجائب گھر کی زینت بنایاگیاہے۔ یہی صورت حال پشاور کے عجائب گھر میں بھی درپیش ہے جہاں950 نوادرات افادہ عام کے لیے رکھے گئے ہیں جب کہ 4544 محفوظ خانے میں رکھے گئے ہیں۔ سوات کے عجائب گھر میں 151نوادرات افادۂ عام کے لیے اور 3029 محفوظ خانوں میں رکھے گئے ہیں۔اتنی کثیر تعداد کے نوادرات کو منظر عام سے پوشیدہ رکھنے کی وجوہات یہ ہیں کہ عجائب خانوں کی موجودہ وسعت اس کی متحمل نہیں۔



Tuesday, January 21, 2014

GORAKH HILL SINDH,PAKISTAN

Gorakh Hill

Gorakh is a Hill Station of Sindh, Pakistan. It is situated at an elevation of 5,688 ft.(1,734m) in the Kirthar Mountains,94 Kilometers north west of Dadu city.Gorakh Hill Station is situated on one of the highest plateaus of Sindh, spread over 2,500 acres(10km2),and due to its surroundings it attract nature lovers. Due to its elevation, it lies in a special climatic zone, with the temperature falling below zero degrees during winter and generally staying below 20oC even in summer, with about120mm of rainfall annually on average.


















Friday, November 16, 2012

RAWALPINDI HEART OF THE POTHOHAR(IN PROGRESS)


RAWALPINDI

Rawalpindi also known as Pindi, is a city in the Pothohar region of Pakistan near the country's capital city of Islamabad, in the province of Punjab. Rawalpindi is the fourth largest city in Pakistan after Karachi,Lahore and Faisalabad. In the 1950s, Rawalpindi was smaller than Hyderabad and Multan, but the city's economy received a boost during the building of Islamabad (1959–1969), during which time Rawalpindi served as the national capital and its population increased from 180,000 at the time of independence to over 4.5 million in 2007. Rawalpindi is in the northernmost part of the Punjab province, 275 km (171 mi) to the north-west of Lahore. It is the administrative seat of theRawalpindi District. The total area of the city is approximately 108.8 square kilometres (42.0 sq mi). Rawalpindi is the military headquarters of the Pakistani Armed Forces.
Rawalpindi, named after Raja Pindi, is a bustling city on the northernmost part of the Punjab province, strategically located between the North-West Frontier Province andAzad Jammu and Kashmir. Many tourists use the city as a stop before traveling towards the northern areas. Rawalpindi is also a prime destination for the expatriate community of Azad Jammu and Kashmir. Numerous shopping bazaars, parks and a cosmopolitan population attract shoppers from all over Pakistan and abroad. The city is home to several industries and factories. Islamabad International Airport is actually located in Rawalpindi and serves both cities.
Rawalpindi also maintains strong links with the Pahari-Potwari speaking people of neighbouring Azad Kashmir who have many businesses within the city and region.

History


The Mosque at Gulshan Dadan Khan
Rawalpindi has been inhabited for thousands of years, it is believed that a distinct culture flourished on this plateau as far in c1000BC. The material remains found at the site prove the existence of a Buddhist establishment contemporary to Taxila and of a Vedic civilisation. The nearby town of Taxila has another significance; according to the Guinness Book of World Records it has the world's oldest university - Takshashila University.
Sir Alexander Cunningham identified certain ruins on the site of the cantonment with the ancient city of Ganjipur or Gajnipur, the capital of the Bhatti tribe in the ages preceding the Christian era. Graeco-Bactrian coins, together with ancient bricks, occur over an area of 500 ha (2 mi²). Known within historical times as Fatehpur Baori, Rawalpindi fell into decay during one of the Mongol invasions in the fourteenth century.
It appears that the ancient city went into oblivion as a result of the White Hun devastation. The first Muslim invader, Mahmud of Ghazni (979-1030), gave the ruined city to a Gakhar Chief, Kai Gohar. The town, however, being on an invasion route, could not prosper and remained deserted until Jhanda Khan, another Gakhar Chief, restored it and named it Rawalpindi after the village Rawal in 1493. Rawalpindi remained under the rule of the Gakkhars until Muqarrab Khan, the last Gakkhar ruler, was defeated by the Sikhs under Sardar Milka Singh in 1765. Singh invited traders from the neighbouring commercial centres of Jhelum and Shahpur to settle in the territory.
Early in the nineteenth century Rawalpindi became for a time the refuge of Shah Shuja, the exiled king of Afghanistan, and of his brother Shah Zaman. The present native infantry lines mark the site of a battle fought by the Gakhars under their famous chief Sultan Mukarrab Khan in the middle of the eighteenth century. Rawalpindi was taken by Sikh ruler Maharaja Ranjit Singh in 1818.

British rule


The Mess Hall, Rawalpindi

Queen Victoria's Statue sculpted in England was placed in the city during the rule of the British Empire, 1939
Following the British invasion of the region and their occupation of Rawalpindi in 1849, the city became a permanent garrison of the British army in 1851. In the late 1870s a railway line to Rawalpindi was laid, and train service was inaugurated on 1 October 1880. The need for a railway link arose after Lord Dalhousie made Rawalpindi the headquarters of the Northern Command and the city became the largest British military garrison in British India.
On the introduction of British rule, Rawalpindi became the site of a cantonment and, shortly afterward, the headquarters of 2nd (Rawalpindi) Division. Its connection with the main railway system by the extension of the North-Western Railway to Peshawar immensely developed its size and commercial importance. The municipality was created in 1867.
Rawalpindi at the beginning of the 1900s became the most important cantonment in the British Raj - the colonial dominion of the Indic or South Asian sub-continent. For example, the municipality's population in 1901 population was 40 611, larger than any other cantonment. Its income and expenditure during the ten years ending 1902-3 averaged 180 000 and 210 000 Rs. (rupees), respectively. Income derived mostly (89%) from municipal import duties (octroi) which in that year ran 160 000 Rs. Expenditure included administration (35 000 Rs. or 17%), conservancy (27 000 Rs. or 13%), hospitals and dispensaries (25 000 Rs. or 12%), public works (9 000 Rs. or 3%), and public safety (17 000 Rs. or %).
The cantonment was a major center of military power of the Raj after an arsenal was established in 1883. In 1901 Rawalpindi was the winter headquarters of the Northern Command and of the Rawalpindi military division. It quartered six regiments - one each of British and Native cavalry; two each of British and Native infantry; three companies, one of garrison artillery and two of sappers and miners, including a balloon section; three batteries - one each of horse, field artillery, and mountain; and one ammunition column of field artillery. It has been recently disclosed that the British Government tested poison gas on Indian troops during a series of experiments that lasted over a decade.

Post-independence

The predominantly Muslim population supported Muslim League and Pakistan Movement. After the independence of Pakistan in 1947, the minority Hindus and Sikhs migrated to India while the Muslim refugees from India settled in the Rawalpindi. In the succeeding years, Rawalpindi saw an influx of Muhajir, Pashtun and Kashmiri settlers. In 1959, the city became the interim capital of the country after President Ayub Khan sought the creation of a new planned capital of Islamabad in the vicinity of Rawalpindi. As a result, Rawalpindi saw most major central government offices and institutions relocate to nearby territory, and its population boom.
In 1951, Rawalpindi saw the assassination of the first elected Prime Minister of Pakistan, Liaquat Ali Khan in Company Bagh now known as Liaquat Bagh Park (also called Liaquat Garden.) On 27 December 2007, Liaquat Bagh Park's rear gate in Rawalpindi was the site of the assassination of former Prime Minister Benazir Bhutto.  Her father, former Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto was hanged in Rawalpindi in 1979.

The Murree Road during the construction of Committee Chowk Underpass
The famous Murree Road has been a hot spot for various political and social events. Nala Lai, in the middle of city, history describes Nala Lai water as pure enough for drinking but now it has become polluted with the waste water from all sources including factories and houses. Kashmir Road, was renamed from Dalhousie Road, Haider road from Lawrence road, Bank Road from Edwards Road, Hospital Road from Mission Road, Jinnah Road from Nehru Road. Today Rawalpindi is the headquarters of the Pakistani Army. Pakistan Air Force also has an active airbase in the Chaklala region of Rawalpindi.

Boundary and expansion

Though Rawalpindi has expanded mostly due to explosive population pressure, Nespak has been given the responsibility to render the urban planning services—analysing available data and other documents like master plans, structure plans, outline development plans and census reports. It is also responsible for defining the geographical features of the city and provides the a rough idea of how the city could be expanded in the next 20 years.

Climate

Similar to neighboring Islamabad, Rawalpindi features a humid subtropical climate with long and very hot summers, a monsoon and short, mild, wet winters. Rawalpindi during the summer season experiences a number of thunder or wind storms that sometimes cause damage to property. Wind speeds could reach an astonishing 167 km/h in some wind storms which results in the collapse of walls and roofs causing injuries and sometimes death. Rawalpindi is chaotic but relatively dust-free. The weather is highly variable due to the location of Rawalpindi. The average annual rainfall is 39 inches (990 mm), most of which falls in the summer monsoon season. However, frontal cloudbands also bring quite significant rainfall in the winter. In summer, the maximum temperature can sometimes soar up to 47 °C (117 °F), while it may drop to a minimum of −4 °C (25 °F) in the winter.

Economy


Bank Alfalah branch in Rawalpindi
According to the general survey of industry conducted by Directorate of Industries and Mineral Development Punjab, there are 939 industrial units operating in the district. This district is not famous for industrial goods like other districts. The progress has been mostly in the private sector. The existing industrial units provide employment to about 35,000 people, i.e., about 1.6% of district population is directly employed in large, medium and small industrial units. Apparently there is no shortage of skilled manpower. The Technical/Vocational Training Institute operating in the district turns out about 1,974 technicians/artisans annually. They are trained in engineering, air conditioning, drafting, metallurgy, welding, auto knitting and commerce, etc.
§                    Kohinoor Textile Mills is the largest unit in the district. It is located near Naseer Abad and is equipped with 50,000 spindles and 1,021 power looms.
§                    Wattan Woolen and Hosiery Mills is fitted 10,000 spindles.
§                    Rahat Woolen Mills, established in 1954, is one of the oldest and most prominent mills in Rawalpindi.
Jinnah Road, formally known as City Saddar Road, is one of the busiest business markets. It could be considered as business headquarters northern Pakistan including retailers, wholesalers, distributors, manufacturers having an approximately cash flow of more than 1 billion rupees per day. The importance of Jinnah Road can be seen by the presence of more than nine banks on the road with more opening soon.

Civic administration


Administrative subdivisions of Rawalpindi District.
The City-District of Rawalpindi comprises eight autonomous tehsils, besides Rawalpindi city (divided into Rawal & Potohar Tehsils):
1.     Gujar Khan
2.     Potohar (Southern Rawalpindi)
3.     Taxila Tehsil
4.     Rawal (Northern Rawalpindi)
5.     Kallar Syedan
6.     Kahuta
7.     Kotli Sattian
8.     Murree
The famous Murree Road has been a hot spot for various political and social events. Nala Lai, in the middle of city, history describes Nala Lai water as pure enough for drinking but now it has become polluted with the waste water from all sources including factories and houses. Kashmir Road, was renamed from Dalhousie Road, Haider road from Lawrence road, Bank Road from Edwards Road, Hospital Road from Mission Road, Jinnah Road from Nehru Road.
Rawalpindi also holds many private colony's who have developed themselves rapidly for e.g. Pak PWD, Korang Town, Ghori Town, Pakistan Town, Judicial Town, Bahria Town which is the Asia's largest private colony, Kashmir Housing Society, Danial Town, Al-Haram City, Education City.

Demographics

The population of Rawalpindi is approximately 1,991,656 according to the 2006 census which includes many people who come from Punjab villages looking for work in the city. Punjabi is the language of people and most people speak Pothohari dialect of Punjabi language. The majority of the people of Rawalpindi are Muslims. There are many mosques throughout the city. The most famous Mosques are Jamia Mosque, Raja Bazaar Mosque and Eid Gah Mosque which attract thousands of visitors daily. Other minority religions are Christian, Zoroastrian, Bahai, Parsi, Hinduism and Sikhism. The literacy rate is 80% (2006–07). The population is ethnically and linguistically heterogeneous, comprising Rajputs, Pothohari,Sudhun, Dhamial Rajputs, Chauhans, Satti, Awans,Kathwals, Paharis, Kashmiris, Pakhtuns, Gujjars, Muhajirs, Hindkowans, Afghans, Sheikh, Hazaries, Punjabis,Qureshis.

Culture

Rapidly developing into a large city, Rawalpindi has many good hotels, restaurants, clubs, museums and parks, of which the largest is the Ayub National Park. Rawalpindi forms the base camp for the tourists visiting the holiday resorts and hill stations of the Galiyat area, such as Murree, Nathia Gali, Kotli, Ayubia, Rawlakot, Muzaffarabad, Bagh, Abbottabad, Samahni, Swat, Kaghan, Gilgit,  Skard,u and Chitral.
The crowded alleys of the old city are home to many attractions, including Hindu (in ruins now), Zoroastrian, Sikh temples and Islamic shrines. There are several museums and arts galleries such as the Lok Virsa, Pakistan Museum of Natural History, and the $Idara Saqafat e Pakistan.

Markets and bazaars


Raja Bazaar Rawalpindi
The main bazaar areas are Raja Bazaar in the old city, Moti Bazaar, Commercial Market, China Market and Saddar Bazaar, which developed as the cantonment bazaar between the old city and The Mall. Another developing market is the Commercial Market in the area of Satellite Town near Islamabad.

Military headquarters


Army Welfare Trust Building
Rawalpindi has been a military city since colonial times and remained Army headquarters after independence in 1947. Due to this, the city is home to the Pakistan Army Museum, with displays on colonial and present day armies, armoury of historical significance and war heroes. Today Rawalpindi is the headquarter of the Pakistani Army.

Parks and places of interest


The gate of Pharwala Fort
Ayub National Park is located beyond the old Presidency on Jhelum Road. It covers an area of about 2,300 acres (930 ha) and has a playland, lake with boating facility, an aquarium and a garden-restaurant. Rawalpindi Public Park is on Murree Road near Shamsabad. The Park was opened to the public in 1991. It has a playland for children, grassy lawns, fountains and flower beds.
In 2008 Jinnah Park was inaugurated at the heart of Rawalpindi and has since become a hotspot of activity for the city. People from as far out as Peshawer come to Jinnah Park to enjoy its modern facilities. It houses a state-of-the-art cinema, Cinepax, a Metro Cash and Carry supermart, an outlet of McDonalds, gaming lounges, motion rides and other recreational facilities. The vast lawns also provide an adequate picnic spot. In mid-2012 3D cinema, The Arena, started its operations in Bahria Town Phase-4 in Rawalpindi. The cinema has a maximum capacity of 264 people and caters to the needs of both Rawalpindi and Islamabad residents.
Rawat Fort is 17 km (11 mi) east of Rawalpindi, on the Grand Trunk (G.T.) Road leading to Lahore. Gakhars, a fiercely independent tribe of the Pothohar Plateau, built the fort in the early 16th century. The grave of a Gakhar Chief, Sultan Sarang Khan is inside the fort. He died in 1546 fighting against the forces of Sher Shah Suri. A climb up the broken steps inside the tomb is rewarded with a panoramic view of the plateau and the Mankiala Stupa. Besides Rawat, about an hour's drive from Rawalpindi on the Grand Trunk Road toward Peshawar, is Attock Fort. The Akbari fort is not open to the public as it is in active military use.
Pharwala Fort is about 40 km (25 mi) from Rawalpindi beyond Lehtrar road. It is a Gakhar fort built it in the 15th century on the ruins of a 10th century Hindi Shahi Fort. Emperor Babur conquered the it in 1519. Later, in 1825, Sikhs expelled Gakhars from this fort. Though in a crumbling state, it is still an attraction for castle lovers. The fort, situated in prohibited area, is only open to Pakistani visitors.

Architecture

Rawalpindi has numerous sights of architectural masterpieces. A few of the heritage buildings are Purana Qil'aa (The Old Fort), Bagh Sardaran (Chief's Gardens), Haveli Sujaan Sigh (the remains of the Sikh Nawabs of Rawalpindi; the grand building has been converted into Fatima Jinnah Women University, which is the only female university established in the region). Other ancient buildings include Jain Mandir, Jain Temple. Gordon College, a prestigious institution of high learning was set during the British Raj. The shrine of Hazrat Sakhi Shah Chan Charagh is one of the centres devotees flock to. An institution of high devotion and solace located near the famous Raja Bazar. He is the patron saint of the city and regarded as one of the two protectors of the twin cities, i.e., Islamabad and Rawalpindi, with Hazrat Bari Imam, his cousin brother. Similarly, Darbar of descendants of Hazrat Bari Imam i.e. Shah Miran Mustafa and Shah Sharif Badshah is located at Dhaman Syedan, Rawalpindi. Peer Syed Salamat Hussain Kazmi, a successor of Shah Miran Mustafa and Shah Sharif Muhammad, spread a message of peace, brotherhood and respect for humanity, as taught by his ancestors. Before the death of Peer Salamat Hussain Kazmi, he handed over all the religious responsibilities to his son Syed Talat Abbas Kazmi, who is adamant to the teachings of his father and forefathers.
Rawalpindi also has many high-rise buildings under-construction. Most of these building are destined to become shopping plazas but a few of them also belong to corporate entities, like, the Fauji Tower on Peshawar Road.

Sport


Rawalpindi Cricket Stadium
The city has an array of stadiums and grounds to meet the needs of all the popular sports played in the country. Rawalpindi is home to some of the many recognized players in the history of Pakistani cricket and is known to produce high-quality fast-bowlers. The most notable of the lot is the maverick paceman Shoaib Akhtar, known as the Rawalpindi Express. Mohammad Aamir is another aspiring fast-bowler from Rawalpindi.
The Rawalpindi Cricket Stadium, built in 1992, has a grass pitch, floodlights, and an initial capacity to hold 20,000 spectators. In mid-2008 plans to increase its capacity were made but lack of adequate funds, and later the attack on Sri Lankan cricket team lead to abandoning of the project . The home team are the, one-time T20 champion, Rawalpindi Rams who enjoy fervent support and a considerable following for their swash-buckling brand of cricket. Apart from the RCS, there are many other cricket grounds in the city, including,Pindi Club Ground (home to the Pindi Club), KRL Stadium, CMTSD Cricket stadium as well as the Attock Oil Refinery cricket ground.
There are stadiums for hockey such as the Army Hockey Stadium, Army Signals Hockey ground as well as the Noor Station Ground Dhoke Hassu. A full-fledged, international hockey stadium, to be named after the hockey great Shahnaz Sheikh, is under construction near Municipal Road and is expected to be completed in late 2012.
There are stadiums for football including the Municipal Football stadium and the Army Football ground as well. The COD sports complex houses admirable facilities for indoor games.

Education


Govt College for Women

Rawalpindi Medical College, Tipu Road

Fatima Jinnah Women University
Rawalpindi boasts of one of the highest literacy rates in the country. It's 80% is second only to the capital,Islamabad's 87%. The local populace can easily communicate in Urdu, and a significant portion also understands and speaks English very well. Potohari is the mainstream local language, however other Punjabi dialects such as Saraiki, Hindko, Dhani and Pahari are also understood fairly well.
Education in Rawalpindi can be divided into five levels:primary (grades one through five); middle (grades six through eight); high (grades nine and ten, leading to theSecondary School Certificate); intermediate (grades eleven and twelve, leading to a Higher Secondary School Certificate); and university programs leading to graduate and advanced degrees. Rawalpindi has both public and private educational institutions. Most educational institutions are gender-based, from primary to university level.
Pir Mehr Ali Shah, Arid Agriculture University (also known as Barani University) is a well renowned public university offering research and education in a number of fields and specializing in agriculture. It is situated on the Murree Road and is placed near other landmarks of the city including the Pindi cricket stadium, Nawaz Sharif Park, Rawalpindi Arts Council etc.
Army Medical College is also known as the College of Medical Sciences and is located on Abid Majid Road in Rawalpindi. Separate computer labs are available for both post-graduate and undergraduate students. Other facilities in the campus include a library, cafeteria, college mosque, swimming pool, gym, squash court, and auditorium. There are seven hostels for male and female students near the college campus.
College of Electrical and Mechanical Engineering is located on Grand Trunk Road in Rawalpindi, EME is the largest constituent college of NUST. The campus includes all on-campus facilities, auditorium and conference hall, accommodation and mess facilities. The library is fully computerized, with a collection of 70,000 volumes.
Military College of Signals is located on Hamayun Road in Rawalpindi Cantt, it is the oldest constituent college of NUST, founded in 1947 after the independence of Pakistan to train the members of Pakistan Armed Forces. The College of Telecommunication Engineering is located on this campus. The MCS library is computerized, with over 55,000 volumes.
The Rawalpindi Public Library was one of the earliest private public libraries organized after separation from India. The building was donated for a public library by the then-Deputy Commissioner Major Davis on the initiative of philanthropist Khurshid Anwar Jilani, an attorney, writer and social worker. However, the building was confiscated for election and political campaigning during the last days of Field Marshal Ayub Khan's reign, and rare manuscripts and artifacts were taken away by the influential.

Transport


Peshawar Road Rawalpindi
There are many ways to get in and around Rawalpindi. Public transport for travel within Rawalpindi is diverse, ranging from yellow taxis, auto-rickshaws, mini-buses and even tongas(horse-drawn carriages). Due to the lack of planning of roads, traffic jams are found even on smaller roads. For inter-city travel, air-conditioned and non air-conditioned buses and coaches are regularly available to many destinations in Pakistan. There is also an Islamabad/Rawalpindi central railway station that allows travel to every major city in Pakistan. In addition to freight, Pakistan Railways provides passenger rail service throughout the day, with train coaches that have air-conditioning in first-class.

Rail


Rawalpindi Railway Station
The Rawalpindi Railway Station is located in the Saddar. The Railway Station was built in the 1880s by the government of British India. The British built many railways across South Asia to help facilitate trade and more importantly to help consolidate their rule. The routes the British built from Rawalpindi, which contained a major military base, linked to Lahore,Karachi, Peshawar, Quetta, Multan, Faisalabad, Hyderabad, Sindh, Sukkur, Bahawalpur,Jhelum, Gujrat, Gujranwala, Kohat, Khanewal, Nawabshah, Nowshera and the Malakand Pass.

Airport


Benazir Bhutto International Airport in Rawalpindi
Islamabad International Airport is actually located at Chaklala which technically is a part of Rawalpindi. The airport is served by over 25 airlines, both national and international. Pakistan International Airlines (PIA), the national carrier of Pakistan, has numerous routes, with many domestic and international flights every day. Construction on the new Rawalpindi/Islamabad international airport has now been started near the town of Fateh Jang approx 25 kilometres (20 mi) from both cities.

Roads


Mall Road
The main road running through Rawalpindi is the Peshawer Road. It is locally stated that "Every road in Rawalpindi ends up on Peshawar Road". This road runs through the city in an East-West direction and links up with the N-5 in doing so. Another major road in Rawalpindi is the Murree Road. This road runs South-North through the city (after branching from Peshawar Road) and continues to the hill station of Murree, which is a major summer attraction for Rawalpindi residents. Murree Road is one of the busiest roads in the Punjab Province of Pakistan and thus significant construction and expansion work is being done on it.
Rawalpindi is on the ancient Grand Trunk Road (also known as G.T. Road or, more recently, N-5) which links Rawalpindi to nearly every major city in northern and southern Pakistan, from Karachi, to Peshawar, Lahore, Quetta, Multan, Faisalabad, Hyderabad, Sukkur,Bahawalpur, Jhelum, Gujrat, Gujranwala, Kohat, Khanewal, Nawabshah, Nowshera and theMalakand Pass.
The city is also served by two nearby six-lane Motorways, M2 (Lahore-Islamabad) and M1 (Islamabad-Peshawar), which were completed in the 1990s. Somewhat further away is the famous Karakoram Highway, the world's highest international road, which connects Pakistan to China.

Other forms of public transportation

General Bus Stand, Pir Wadhai is the principal bus station for interstate buses and other public vehicles which regularly transports passengers. GBS, Pir Wadhai caters government and private operated buses. It also constitutes large number of reasonable hotel for stay. Luxury Hino, Mercedes buses also operated from Pir Wadhai.
Rawalpindi also houses stations of high quality private bus services. Daewoo Express has a terminal located on Peshawar Road along with the likes of Faisal Movers and Niazi Express.
Taxis and Rickshaws are also readily available on the various hotspots of the city.

Telecommunication

The Pakistan Telecommunication Company (PTCL) provides the main network of landline telephone with minority shares of other operators. All major mobile phone companies operating in Pakistan provide service in Rawalpindi. Pakistan's Broadband revolution has had a significant impact on telecommunications in Rawalpindi. The city, along with other major cities of Pakistan, enjoys a widespread coverage from WiFi and WiMAX operators, with Wateen, WiTribe, Qubee having the most shares. DSL internet also has a major coverage in the city with Nayatel and PTCL the main stakeholders.
Recently a high speed 3G Network, EVO Nitro, was also set up by PTCL with maximum speeds of 9.3 Mbit/s to add up to the already established EVO 3G Network. Though localized, it is the first instance in the history of telecommunication that EVDO RevB technology was commercially launched.
The city also has a significant optic fibre network, with nearly all major commercial and household areas covered. This network allows the local residents to enjoy maximum internet speeds of 50 Mbps, IPTV services and along with high-quality telephony services. Nayatel and PTCL are the market-leaders in the 'triple-play' service.

Parks


Artistic minarets on Peshawar Road

A view of Rawal Dam
§                    Ayub National Park formerly known as Topi Rakh (keep the hat on) is located by the old Presidency, between the Murree Brewery Co. and Grand Trunk Road. It covers an area of about 2,300 acres (930 ha) and has a play area, lake with boating facility, an aquarium, a garden-restaurant and an open air theater. This park hosts "The Jungle Kingdom" which is particularly popular among young residents of the city.
§                    Liaquat Bagh formerly known as the "company bagh" (East India Company's Garden), is of great historical interest. The first prime minister of Pakistan, Liaquat Ali Khan, was assassinated here in 1950. Pakistan's Prime Minister Banazir Bhutto was assassinated here on 27 December 2007. She was the youngest elected Prime Minister of the world.
§                    Rawalpindi Public Park (also known as Nawaz Sharif Park) is located on Murree Road. The Park was opened in 1991. It has a play area for children, lawns, fountains and flower beds. A cricket stadium was built in 1992 opposite the Public Park. The 1996 World Cup cricket matches were held on this cricket ground.
§                    Rawalpindi Golf Course was completed in 1926 by Rawalpindi Golf Club, one of the oldest golf clubs of Pakistan. The facility was initially developed as a nine-hole course. After several phases of development, it is now a 27-hole course. From the clubhouse, there is a panoramic view of Faisal Mosque, the twin cities of Islamabad and Rawalpindi, and the course itself. Major golf tournaments are regularly held here.
§                    Playland is another public located parallel to Ayub Park, its nearness to many classy colonies and housing schemes makes this wonderland an attractive hotspot during the holidays.
§                    Liaquat National Bagh
§                    Jinnah Park
§                    Ayub Park
§                    Rumi Park
§                    Army Race Course Ground (Race Course Road, Rawalpindi)
§                    Children Park
§                    502 (Workshop) Park
§                    Rose and Jasmine Garden
§                    Triangular Park (Tikoona Baagh) located just opposite to Military Hospital Rawalpindi.

Some old pictures of Rawalpindi
The mall Rawalpindi 1914
Saddur bazar Rawalpindi

Lockhart war Memorial Rawalpindi, 1900 AD(Roomi park Peshawar road)



Old picture of Rawalpindi showing Sirdar Sujan Singh antique Palace and gardens which is located at a walking distance from famous Raja / Sarafa / Bhabra bazars of Rawalpindi...1912 AD


Massy Gate and Jain Public Library, Rawalpindi


Old pic of Railway Station 1910

Old pic of Railway Station 1910