Tuesday, September 13, 2016

دنیا کی پراسرار ترین جگہ، ٹیکسل (جاوید چودھری)


·      
ٹیکسلا‘ اسلام آباد سے شمال مغرب میں33کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہ خوب صورت وادی شمال مشرق کی جانب مری‘ جنوب مشرق سے مارگلہ اور شمال مغرب کی طرف پہاڑیوں میں گھری ہوئی ‘شمالاً جنوباً 5 میل اور شرقاً غرباً 17 میل پر محیط ہے۔یہاں سے دو دریاگزرتے تھے جو اس کے شاداب ہونے کے ضامن تھے‘ اس کا جغرافیائی مقام اس کی اہمیت میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ یہ تین اہم تجارتی راستوں کا مقام اتّصال تھا جن میں ایک راستہ برصغیر پاک و ہند‘ دوسرا وسطی ایشیا ء اور تیسرا غربی ایشیا ء کو جاتا تھا۔

اس شہر کا ذکر ہندومت‘ جین مت اور بدھ مت کی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اس کی دستیاب تاریخ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے چھ سو سال قبل سے شروع ہوتی ہے۔ 330-580 میں یہ شہر ایرانی شہنشاہیت کے زیرنگیں تھا۔ ان سے قبل یہاں تیکشا قبیلہ حکم ران تھا۔ ٹیکسلا سنسکرت لفظ تیکشا اورسیلا کا یونانی مخفف ہے جس کا مطلب سانپوں والی پہاڑی ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ تیکشا سانپوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی مرضی سے انسانی شکل اختیار کر لیتے تھے۔ مہا بھارت میں ذکر ہے کہ آریا مہاراجا ’’جنم جایا‘‘ نے جنگ میں شکست دے کر تیکشا قبیلے کا قتل عام کیا اور اس فتح کے بعد یہاں ناگ کی قربانی دی۔
چھٹی صدی عیسوی ق م میں ٹیکسلا اپنی قدیم جامعہ ’’گندھارا‘‘ کی وجہ سے علم و فضل کا مرکز مانا جاتا تھا۔ جوتی پال‘ جودیکا‘ کوتلیا‘ چانکیا جیسی ممتازشخصیات ان ہی درس گاہوں سے فارغ التحصیل تھیں۔سکندر اعظم (326ق م) کی آمد کے موقع پر یہاں موریا خاندان کا راجا امبھی حکم ران تھا‘ اس نے مقابلہ کرنے کے بجائے سکندر کی مدارات کی اور شہر میں کئی عمارتیں سکندر کے لیے تعمیر کروائیں۔ چار سال بعد چندر گپت موریا نے یونانی افواج کو دریائے اٹک کے پاربھگا دیا اور ٹیکسلا اور پنجاب کی دیگر ریاستوں کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تاہم اشوک اعظم 273-232)ق م)کی وفات کے بعد موریا سلطنت بکھر گئی اور 190ق م کے قریب باختریوں نے وادئ کابل‘ پنجاب اور سندھ کے علاقے فتح کر کے ٹیکسلا کو اپنا دارالحکومت بنالیا۔ کچھ عرصہ بعد باختریوں نے اس شہر کو چھوڑ کر شمال مشرق میں نمرہ نالہ کے بالمقابل ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جسے سرکپ کہتے ہیں جو دوسری صدی بعد ازمسیح تک یکے بعد دیگرے باختریوں(Bactrian Greek)‘ شاکا(Scythians)‘ پہلوی(Parthians)‘ کُشان (Kushans) ا ور ساسانیوں (Sasanians) کے زیر اثر رہا۔ سلطنت کُشان کے دوسرے بادشاہ ویم کیڈفائیسس نے سرکپ شہر چھوڑ کر ایک تیسرا شہر شمال مشرق میں دو میل دور لنڈی نالے کے پار سرسکھ نام کا شہر بسالیا۔ یہ شہر شایان کشان کے زیر اثر پانچویں صدی بعد مسیح تک آباد رہا455ب م کے اواخر میں سفیدہن (White Huns) ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور دوسرے شہروں کی طرح ٹیکسلا بھی اجاڑ دیا‘ اس کے بعد ٹیکسلا کی شان کبھی لوٹ کر نہ آئی۔ چینی سیاح ہیو سانگ ساتویں صدی عیسوی میں یہاں آیا تو اس نے دیکھا کہ ٹیکسلا سلطنت کشمیر کا صوبہ ہے‘ عبادت گاہیں تباہ و برباد اور معاشی حالات ابتر ہیں۔



بھیر ماؤند:ٹیکسلا کا پہلا شہر بھیر ماؤند(200۔600ق م) کے نام سے موسوم ہے یہ وہی شہر ہے جہاں اشوک نے حکومت کی‘ یہ وہی دور ہے جس میں تعمیراتی شاہ کار تخلیق ہوئے۔اس دور میں دنیا بھر میں اس معیار کا کام کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل اور بعد ازاں پاکستانی ماہرین نے اس شہر کا کچھ حصہ بازیافت کیا ہے۔ یہ شہر 600 میٹر شرقاً غرباً اور 1000میٹر شمالاً جنوباً طویل تھااور اسے کچی اینٹوں ‘ گارے اور لکڑی سے بنی انتہائی مضبوط فصیل کے ذریعے محفوظ کیاگیا۔ اس کی کاری گرانہ مہارت بے مثال ہے۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شہر تین بار تباہ ہو ا۔
سرکپ:دوسرا شہرسرکپ (200ب م۔تا۔200ق م) باختری عہد میں تعمیر ہوا ‘اس کی تعمیر میں اعلیٰ یونانی جیومیٹریکل ذوق جھلکتا ہے‘ اس کی تعمیر سطح مرتفع پوٹھوہار کو مدنظر رکھ کر کی گئی۔علم الارضیات پر ان لوگوں کی نظر گہری تھی۔ زمین کا تہ در تہ اور باہم دِگر ہونا‘ چند جدید ارضیاتی دریافتوں میں سے ہے جس سے وہ لوگ آشنا تھے ‘چناں چہ وہ ایک گہرا کنواں کھودتے جو پینے کے پانی کے لیے کھودے جانے والے کنوؤں سے زیادہ گہرا ہوتا تھا‘ دونوں کی گہرائی میں کم از کم دو ارضی تہوں کا فاصلہ ہوتا تھا تاکہ دونوں پانی آپس میں نہ مل سکیں۔دوسرا اہم کام اس میں یہ تھا کہ بے پیندے کے مٹکے اوپر تلے رکھ کر باہم جوڑ دیے جاتے تاکہ گندا پانی دائیں بائیں درمیانی سطح زمین سے صاف پانی کے کنوؤں کو آلودہ نہ کرپائے۔ یہ بے پیندے کے مٹکے ٹیکسلا کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔ شہر خوب صورت مربعوں اور جیومیٹری کی پر کشش ڈرائنگ سے مزین ہے۔ یہ شہر 200 ق م میں بنایا گیا۔ پورا شہر ایک فصیل کے ذریعے محفوظ کیا گیا تھا جو پتھروں سے بنائی گئی تھی ۔21 فٹ چوڑائی کے مسلسل وقفوں کے بعد نیم ڈھلوانی ستونوں سے دیوار کو مضبوط کیاگیا تھا ‘اس کے علاوہ شہر کی پشت پر موجود پہاڑ پر ایک پولیس چوکی اس حفاظتی نظام کو مزید مستحکم کرتی تھی۔ شہر کا نقشہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ شہر کسی ماہر ٹاؤن پلانر کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک خاصی چوڑی مرکزی شاہ را ہ ہے ۔ دائیں بائیں گلیاں متناسب انداز سے بنائی گئی ہیں۔ ایک کمرہ چند انچ بلند‘ دوسرا نیچے اور تیسرا اس سے نیچے تعمیر کیا جاتا تھا تاکہ نکاسی آب میں ڈھلوان کی قوت کو استعمال کیا جا سکے۔ مرکزی شاہ راہ پر ذرا آگے چل کر بازار آتا ہے پھر اشرافیہ کا رہائشی علاقہ اور اس کے بعد بادشاہ کا محل اور بڑا مندر آتا ہے۔ یہ ایک سیکولر شہر تھا‘ اس میں آتش پرست‘ بت پرست اور بدھ مت کے ماننے والے رہتے تھے۔یہ بات دوہرے سروں والے عقابوں کے مندر سے مترشح ہوتی ہے‘ یہ برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد مندر ہے جس میں ہندو‘ ایرانی اور یونانی تینوں تہذیبوں کے دیوی دیوتا موجود ہیں۔ شہر کے مغربی حصہ میں دربار عام‘ محافظوں کی جگہ‘ دربار خاص اور رہائشی علاقے ہیں۔ خواتیں کے کوارٹرز کے ساتھ ایک چھوٹا سا مندر بنا ہوتا تھا۔ سب سے بڑا مندر مرکزی شاہ راہ کے شرقی حصہ میں واقع ہے جو ایک اونچے پلیٹ فارم پر بنایا گیا تھا۔ اس کے چہار طرف دالان تھے اور دیواروں کو مجسموں اور خوب صورت تصویروں سے مزین کیا گیا تھا۔شہر کی آسودہ حالی کا اندازہ یہاں سے برآمد ہوے سونے چاندی کے زیورات کی کثرت سے ہوتا ہے۔ان زیورات پر بنائے گئے نقش و نگار ان لوگوں کے ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس شہر گم گشتہ کی تلاش میں زیادہ تر جس حصہ میں کھدائی ہوئی ہے وہ ہتھیال کی پہاڑی کے شمال میں ہے۔ بالائی سطح سے لے کر 23 فٹ کی گہرائی تک آثار کی مسلسل سات تہیں دریافت ہوئی ہیں۔ یعنی سات شہر اوپر تلے واقع ہیں۔ان تہوں سے پتا چلتا ہے کہ شہر چار سو سال تک آباد رہا۔


سر سکھ :تیسرا شہر سر سکھ ہے ۔سرکپ اور سرسکھ کی وجہ تسمیہ اس علاقے کی لوک کہانیوں کے ایک کردار راجا رسالو اور سات شیطانوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ دو بھائی سر کپ اور سرسکھ اس علاقے کے حکم ران تھے۔ اس شہر کی فصیل 18فٹ موٹی ہے اور بھاری بھرکم نیم قوسی ستونوں سے اسے مزید مضبوط کیا گیا ہے۔فصیل 4500 فٹ شرقاً غرباً 3300 فٹ شمالاً جنوباًپیمائش کی گئی ہے ۔ اس کی تعمیر میں بنیادی کردار عظیم کنشک نے ادا کیا ۔ شہر قریباً مستطیل شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ شہر کی پیمائش قریباً 1500 x 1100 گز ہے‘ فصیل خوب صورت ڈائپر شکل میں ہے۔ابھی اس شہر کے یہی چند نوادرات دریافت ہوپائے ہیں۔
مشہورعبادت گاہیں اور خانقاہیں: مذکورہ بالا تینوں شہروں کے علاوہ ان شہروں کے اطراف ایک وسیع رقبے پربدھوں‘ جینیوں اور آتش پرستوں کی عبادت گاہیں اور خانقاہیں بکھری ہوئی ہیں۔ٹیکسلا پوری دنیا میں اپنے خوب صورت ممتاز اور ممیّز قسم کی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ قدیم زمانے میں ٹیکسلا‘ جین مت کا ایک اہم مرکز تھا اور اس مذہب کی عبادت گاہوں کے آثار یہاں جابجا پھیلے ہوئے ہیں۔
ٹیکسلا کے گرداگرد پھیلے ہوئے چند اہم استوپ اور خانقاہیں مندرجہ ذیل ہیں: :دھرماراجیکا استوپ (500۔100ب م) پاکستان میں موجود غالباً سب سے پرانا استوپ ہے۔ عجائب گھر سے 2 میل جنوب مشرق میں واقع ہے ۔ یہ مندر بدھا کی راکھ کو از سر نو تقسیم کرنے کے لیے موریا خاندان کے مشہور بادشاہ اشوک اعظم نے تعمیر کیا تھا۔ اشوک کو بدھ مت کی خدمات کے عوض دھر ماراجا کا خطاب ملاتھا۔ اسے 1912-16 میں دریافت کیاگیا۔ اس گول استوپ جس کا قطر 131 فٹ اور بلندی 45 فٹ ہے۔ پتھروں کی کاری گری کا شاہکار ہے۔ 30 ب م کے زلزلے سے اس استوپ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ 40 ب م میں کشان حکم رانوں نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا اور اسے گوتم بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار کی نمائندگی کرنے والے مجسموں سے مزین کیا۔ یہ استوپ گندھارا آرٹ کے شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے۔
۲: جندیال مندر‘ سرکپ شہر کے شمال کی طرف ہے۔ اس کو غالباً یونانیوں نے تعمیر کیا تھا جو یہاں آنے سے قبل آتش پرست تھے۔ اسے یونانی فن کا بہتر نمونہ قرار دیاجاسکتاہے۔
۳:موہڑہ مرادو استوپ ‘ٹیکسلامیوزیم کے شمال مشرق سے قریباً 6کلومیٹر پر واقع ہے ۔ اسکے ساتھ خوبصورت خانقاہ بھی ہے جس میں27حجرے مربع صورت اور ترتیب میں بنائے گئے ہیں اور ایک مربع صحن اس کے بیچوں بیچ ہے۔ 16فٹ اونچے صحن پر یہ استوپ بنایا گیا تھا اور اس کے متصل ایک چھوٹا استوپ بھی ہے۔ نویں حجرے میں ایک 20فٹ اونچی برجی پائی گئی ہے ۔ یہ کسی بڑے بھکشو کی تپسیا کی جگہ تھی اور اسی کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے یہ یادگار بنائی گئی تھی۔ اس یادگار کی نقل عجائب گھر میں رکھی گئی ہے۔
۴:جولیاں(200-500 ب م) کا مندر عجائب گھر سے 7کلو میٹر شمال مشرق میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہ 916-17 میں دریافت ہوا۔یہاں سے برآمد ہونے والے بدھ کے اکثر مجسمے پتھر‘ چونے اور جپسم سے بنے ہوے ہیں۔ اس کے ساتھ ملحق خانقاہ ہے اور اس سے منسلک باورچی خانے اور غسل خانے وغیرہ بہتر حالت میں ہیں۔ یہاں سے برِہمی علامتی اور سنسکرت میں لکھی گئی کچھ تحریریں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ یہ تحریریں پانچویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہیں۔
۵: کلاوان استوپ‘ دھرماراجیکا سے شمال کی طرف قریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے۔
۶:پپلان استوپ کے ہر طرف پیپل کے درخت تھے جس سے اس کا یہ نام پڑ گیا ۔ یہ 1923-24 میں دریافت ہوا۔ یہ استوپ پہلوی دور یا ابتدائی کشان دور سے تعلق رکھتاہے۔ یہ سر سکھ سے جنوب مشرق میں قریباً دو میل کے فاصلے پر ہے۔
۷:بھیمالا استوپ 1930-31ء میں دریافت ہوا۔ یہ سرسکھ سے شمال مشرق میں قریباً 5میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے علاوہ بھلڑا استوپ‘ کنالا استوپ اوراس کے ساتھ منسلک خانقاہ ‘قادر موہڑا اور اخوری بھی قابلِ دید ہیں۔ زیادہ تر پانچویں صدی عیسوی کے دوران تعمیر کیے گئے تھے۔
ٹیکسلاعجائب گھر
1911
میں ٹیکسلا کے کھنڈرات کی دریافت کے بعد 1918 میں عجائب گھر کا سنگ بنیاد لارڈ وائسرائے اور گورنر جنرل کلیمس فورڈ نے رکھا۔ آرکیٹکٹ لی ایم سلیوان نے اس کو ڈیزائن کیا جو میو سکول آف آرٹ لاہور سے فارغ التحصیل تھے۔ افتتاح سرمحمد حبیب اللہ نے 5اپریل 1928 کو کیا۔ اس عجائب گھر کی تزئین و آرائش اور اشیاء قدیمہ کی ترتیبِ نو 2003 میں کی گئی ۔تمام اشیا ء کو تدریج و تسہیل کے بین الاقوامی انداز سے پیش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ عجائب گھر کے ساتھ ملحقہ باغات کو از سرِ نو سنوارا اور سجایاگیا ہے۔میوزیم کے پائیں باغ میں پیپل کا ایک درخت خاص طور سے سری لنکا سے لاکر لگایا گیا ہے۔اس درخت کی تخصیص یہ ہے کہ یہ اس درخت کی ایک پھوٹ ہے جس کے نیچے بیٹھ کر مہاتمابدھ نے ’’نروان‘‘ حاصل کیا تھا۔دوسری صدی ق م میں شہنشاہ اشوک کی لڑکی’ ’سنگھامیتا‘ ‘اصل درخت کی ایک پھوٹ سیلون لے گئی تھی جہاں انورادھاپور کے شہر میں یہ پروان چڑھتا رہا۔ 12دسمبر 1963 میں جب آمر جنرل ایوب خان سیلون کے دورے پر گئے تو سیلون کے وزیر اعظم نے انہیں اس مقدس درخت کی پھوٹ تحفے میں دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ٹیکسلا عجائب گھر سے ملحقہ باغ میں یہ پودا اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔
بودھا کا نایاب مجسمہ جو’’ برلن‘‘سے واپس لیاگیا 
محکمۂ آثارِ قدیمہ کے مطابق تمام آثار قدیمہ کو افادۂ عام و خاص کے لیے تدریجاً صفحۂ قرطاس پہ مرقوم و محفوظ کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایاگیا ہے جو اس وقت ٹیکسلا کے عجائب گھر میں محصور ہیں۔ دوسرے مرحلے میں آثار قدیمہ کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے اور شائع کرنے کا سلسلہ 1500سے زیادہ قدیم استوپ آثار و نوادرات پر مشتمل ہے جب کہ تیسرا مرحلہ 3000 سے زیادہ ٹیراکوٹا کے نایاب آثار اور 4000 سے زیادہ دھاتی نوادرات پر مبنی ہوگا۔ محکمے نے بتایا کہ ان تمام کتابی مشمولات کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ان کی غیر قانونی سمگلنگ کو روکا جاسکے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی ملک نوادرات پر تحریری مواد کے ثبوت کے بغیر ان پر حقِ ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال بودھا کا وہ نایاب مجسمہ ہے جو برلن سے واپس حاصل کیا گیا ہے کیوں کہ اس کو کتابی صورت میں محفوظ کرلیاگیا تھا۔ یہ مجسمہ وادی پشاور سے چوری ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کثیر تعداد میں ٹیکسلا آثار قدیمہ کے نوادرات کو سٹورز میں محفوظ کیا گیا ہے اور بہت کم کو عجائب گھر کی زینت بنایاگیاہے۔ یہی صورت حال پشاور کے عجائب گھر میں بھی درپیش ہے جہاں950 نوادرات افادہ عام کے لیے رکھے گئے ہیں جب کہ 4544 محفوظ خانے میں رکھے گئے ہیں۔ سوات کے عجائب گھر میں 151نوادرات افادۂ عام کے لیے اور 3029 محفوظ خانوں میں رکھے گئے ہیں۔اتنی کثیر تعداد کے نوادرات کو منظر عام سے پوشیدہ رکھنے کی وجوہات یہ ہیں کہ عجائب خانوں کی موجودہ وسعت اس کی متحمل نہیں۔



No comments:

Post a Comment